پولیس گردی سے جو پردہ اُٹھاؤں
اس بوسیدہ نظام کو جو آئینہ دکھاؤں
اکیلا ذہنی مریض ہی نہیں رہا اس کا نشانہ
زندہ لاشوں کا یہ ہے مدفن جو فسانہ سناؤں
جرائم کی پیداوار ہیں یہ پولیس والے
یہاں سب کچھ ہوتا ہےجو ان پر پیسہ لٹاؤں
صلاح الدین نے اس مافیا کا منہ ہے چڑھایا
یہی تھا وہ طریقہ قوم کو جو بات سمجھاؤں
اربابِ اختیار کب تک رسوا ہونےدیں گے ہمیں
جان کی امان مل جائے جو ان کی علم میں یہ لاؤں
یہ ہیں محافظ اور ہیں تہذیب سےبلکل عاری
شاید ہو سکیں یہ بہتر جو ادب کے سبق سکھلاؤں
ہمیں امید تھی کہ اب کی بار آئے گی بہتری
وہ سب کیا تھاجو پرانی باتوں سے روشناس کرواؤں
حکومت بھی اگر ان کے آگے ہے بے بس
پھرچپکے سے روشنی کاجودیاہےاسےہی بجھاؤں