جب رات کے تنہا لمحوں میں
کوئی آہٹ کان میں آتی ہے
اک وہم سا دل میں اٹھتا ہے
میرے گھر کے اجڑے آنگن میں
وہ پگلی دوڑی آتی ہے
پھر مجھ کو پاس بلاتی ہے
دل اس کے خیالوں میں پاگل
یوں خوش ہو دھڑکنے لگتا ہے
جیسے وہ سچ مچ دیوانی
جو میری یاد سے بیگانی
مجھے کہتی ہے آ جاؤ ناں
سینے سے مجھے لگاؤ ناں
تم اپنا مجھے بناؤ ناں
میں ہاتھ پھیلا کے اس کی طرف
یوں زور سے دوڑنے لگتا ہوں
اسے لینے اپنی بانہوں میں
جیسے وہ سامنے ہے میرے
لیکن روتی ہے آنکھ میری
جب لپٹ کے میں دیواروں سے
بس اتنا ہی کہ پاتا ہوں
اے کاش وہ پگلی آ جاتی
اے کاش میری پگلی آجاتی