موسم تو مہربان ہے کلیاں اچھال کے
لمحے کہاں سے لاؤں پگھلتے خیال کے
ممکن نہیں ہے دھوپ کی کھیتی پنپ سکے
گم سم ہے آسمان گھٹاؤں کو پال کے
ہم قافلے سے چھوٹ گئے اتنی دیر میں
پچھتا رہے ہیں پاؤں کا کانٹا نکال کے
عابد ہمارے سامنے آئے کوئی چٹان
پھیلے ہوئے ہیں ہاتھ ہماری کدال کے