پھر اب درد اٹھا ہے دھیرے سے
دل میں کانٹا چبھا ہے دھیرے سے
بجلی کڑکی بادل گرجا کہ ہوا تیز چلی
آج اک دوست بچھڑا ہے دھیرے سے
زخم پہلے ہی کیا کم تھے میرے جگر کے
اور اک زخم جو ملا ہے دھیرے سے
کیسے بھلا پاوں گا میں اس کی رفاقت کے دن
وہ جو دل میں آن بسا ہے دھیرے سے
تو بھی تو مسافر ہے واجد تو بھی چلا جائے گا
کیوں پھر آج یہ دل مچلا ہے دھیرے سے