صدائے طلوعِ سحر سن کر ہوش جو آیا
تو یہ معلوم ہوا
کہ شب بھر بھیگی پلکوں سے
تیری اک اک یاد کو سمیٹتے سمیٹتے
خود بکھر کر ریزہ ریزہ ہو چکا ہوں
مگر پھر بھی کمال ضبط سے
دن بھر اپنے ہی زخم خوردہ لرزتے ہاتھو ں سے
ٹو ٹ ٹو ٹ کے بکھری اپنی ذات زرہ بے نشاں کی
اک اک کرچی
چن چن کر
ابھی خود کو سمیٹ بھی نہ پایا ہوں
کہ
دن ڈھل گیا
شام ہو گئی
پھر رات آ گئ تیر ی یادیں لے کر