جن کے “ ابے“ وزیر ہوتے ہیں
وہ بڑے “ رسہ گیر“ ہوتے ہیں
نہیں انساں کو مانتے انساں
ایسے “ منکر نکیر“ ہوتے ہیں
پھیلتی جا رہی ہے کابینہ
کیسے آسان ہو گا اب جینا
سہنا ہوگا غریب لوگوں کو
ان وزیروں کا کھانا اور “ پینا“
جو وزیر اور سفیر ہوتے ہیں
دن بدن وہ امیر ہوتے ہیں
لوگ متوسط اور غریب ہیں جو
بھوکے پیاسے‘ فقیر ہوتے ہیں
اے خدا تو ہے ہمدم و ہمراز
رسی ظالم کی کر نہ اور دراز
اب تو جابرکے سرپہ برسا دے
وہ جو لاٹھی تیری ہے بے آواز
مجھ سے اک یار نے سوال کیا
عمر بھر کیوں نہ جمع مال کیا
عرض کی‘ آن مانگتا تھا قلم
اسکی خواہش کا بس خیال کیا
جسم آسائشوں کے بن ہوگا
دل تو ہر طرح مطمئن ہوگا
رات کو خوب نیند آئے گی
صبح روشن‘ چمکتا دن‘ ہوگا
عمر بے فکر فاقہ گزرے گی
روح بھی پائے گی توانائی
چین سے جی سکیں گے مرنے تک
ماں سے یہ آخری دعا پائی