پہلے تو بولتا نہیں ہوں میں
اور پھر سوچتا نہیں ہوں میں
جسے سُنتے ہی کان بہہ جائیں
زہر وہ گھولتا نہیں ہوں میں
کوئی اخلاق سے جو پیش آئے
طنز سے چُوکتا نہیں ہوں میں
تُو نے جس در کی بحث چھیڑی ہے
اب وہاں تُھوکتا نہیں ہوں میں
کچھ تو دیوار کی خطا ہو گی
سر یُونہی پھوڑتا نہیں ہوں میں
دردِ دل کے بے درد قصوں میں
غم یہ تھا چیختا نہیں ہوں میں
جس نے کچھ بھی بکا ہو میرے خلاف
کیوں وہ منہ توڑتا نہیں ہوں میں
جانے کیا کچھ گنوا دیا میں نے
عشق میں جوڑتا نہیں ہوں میں
جب کرم کی نہیں دلاتے امید
لغزشیں چھوڑتا نہیں ہوں میں
سخت نالاں ہے ہر حسیں پھر بھی
دل لگی چھوڑتا نہیں ہوں میں