پہلے تو نہیں تھا اِس سال ہو گیا ہے
دیکھو اب میرا کیا حال ہو گیا ہے
دوستی، محبت اور وفا، خلوص
سب چیزوں کا یہاں کال ہو گیا ہے
بڑی بے چینی و بے قراری ہے
جینا اب کہ محال ہو گیا ہے
بینا ہو کے بھی نابینا ہو گیا ہوں
اس قدر تاریکی کا جال ہو گیا ہے
کب کی یہاں تو برف سی جمی ہے
دل بھی میرا شُمال ہو گیا ہے
بہت دن ہوئے اُس کی یاد سے ملے بھی
کوچہءِ دل و جاں میں کمال ہو گیا ہے