کہیں خلاؤں سے آئ ہے یار کی خوشبو
دل و دماغ پہ چھا ئ ہے پیار کی خوشبو
لگے ہے دور خزاں آج اختتام پہ ہے
چمن سے آنے لگی ہے بہار کی خوشبو
غریب خانے پہ وہ بس پہو نچنے والے ہیں
لگی ہے د ینے مزہ انتطار کی خوشبو
وہ ایک گل ہے چمن کا - مگر جدا سب سے
نثار اس پہ کروں میں ہزار کی خوشبو
یہ کہہ کے وقت نزع اس نے ڈھک لیا چہرہ
ترے ہی دم سے تھی میرے سنگار کی خوشبو
اٹھا ئے یار نے بھی ہاتھ فاتحہ کے لئے
اثر دکھا گئی میرے مزار کی خوشبو
کرو پھر عزم سفر اے حسن مد ینہ کا
بلا رہی ہے نبی کے د یار کی خوشبو