میں خاک ہند اور گنگا کا پانی لے کے آیا ہوں
بہاری ہوں ریاست کی نشانی لے کے آیا ہوں
تمہارے نام میں چاہت بھرا پیغام لایا ہوں
چھپا کے اپنی آنکھوں میں وہاں کی شام لایا ہوں
بہن کے خواب بھائی کی وفائیں لے کے آیا ہوں
میں شمس الدین یحی کی دعائیں لے کے آیا ہوں
مجھے معلوم ہے تم اب بھی اکثر یاد کرتے ہو
مجھے معلوم ہے گاؤں کا منظر یاد کرتے ہو
بہت بدلا ہے کچھ سالوں میں ہم وطنو بہار اپنا
وہاں کے نوجواں اب کر رہے ہیں کاروبار اپنا
ہر اک کچی سڑک بدلی ہوئی ہے شاہراہوں میں
کہ پھر سے سج رہے ہیں خواب لوگوں کی نگاہوں میں
جہاں بازار بھی جاتے تھے ہم سب روز کشتی سے
وہاں اب پل ہے تانگے دوڑتے رہتے ہیں مستی سے
جہاں جلتی تھی شمع اب وہاں پہ بلب روشن ہے
منور ہر گلی ہر راستہ ہر گھر کا آنگن ہے
ترقی یافتہ اس دور میں بھی گاؤں کے بچے
بہت ہی شوق سے سنتے ہیں نانی جان کے قصے
جہاں کا ایک اک منظر نگاہوں میں جھلکتا ہے
سنو اس آم کی گاچھی میں اب بازار لگتا ہے
مظفر پور کی لیچی تو حاجی پور کے کیلے
پتہ ہے آم دربھنگہ کہ تم اب تک نہیں بھولے
نہیں بھولے ہو تم وہ گاؤں کی چوپال کی رونق
نہیں بھولے ہو تم اب تک وہ ماہ وسال کی رونق
تمہارے ذکر سے ہر کوئی دل کو شاد کرتا ہے
سنو اب بھی عظیم آباد تم کو یاد کرتا ہے
تمہارا منتظر اب بھی وہاں کا ہر پرند ہ ہے
جہاں کی پینٹنگ میں میتھلی تہذیب زندہ ہے
گزر جائے ہوا جس وقت لگ کے تیرے دامن سے
سمجھ لینا پکارا ہے کسی نے تجھ کو سارن سے
جو ہم سب کے لیے برسوں سے ہے انمول بھاؤ کا
تمہیں تو یاد ہوگا دوستو کھاجا سلاؤ کا
چراغ عشق ان آنکھوں میں جس دم جھلملاتا ہے
مگدھ مونگیر پورنیہ و کوسی یاد آتا ہے
تمہاری آنکھیں نم ہو جائیں گی باتیں مری سن کر
ترستی ہے انہیں کاندھے کو بھاگلپور کی چادر
کبھی جب چانرنی راتوں میں بچے شور کرتے ہیں
تمہیں موجود نہ پاکر کئ دل آہ بھرتے ہیں
تمہیں مندر بھی مسجد بھی شوالہ یاد کرتا ہے
گلی کے موڑ کا وہ چائے والا یاد کرتا ہے
مہزب باپ ماں سمجھاتے ہیں ان پر بگڑتے ہیں
مگر کیچڑ میں بچے آج بھی مچھلی پکڑتے ہیں
نکلنے کو گلی کے موڑ پر اکثر نکلتا ہے
مگر وہ چاند تو اب بھی تمہاری راہ تکتا ہے.
وہاں باغوں میں اب بھی کوکتی ہے ہر گھڑی کویل
کسانوں کے لئے ہے اب بھی ہے سب کچھ ان کے بیل اور ہل
محرم خوب گزرا چاند اور رنجن چچا کے ساتھ
منائ ہے دیا شنکر نے ہولی مصطفٰی کے ساتھ
تمہارا ذکر کرتے ہیں کنہیا اور لالا بھی
بہت ہی یاد کرتا ہے وہ مرشد پان والا بھی
قمر مجنوں بنا ہے اب جدائی ہونے والی ہے
میاں بدرل کی بیٹی کی سگائ ہونے والی ہے
نہ جانے کیا کہا چپکے سے یہ عابد کے چیلے نے
چچا جمن کی عینک توڑ دی طاہر کے بیٹے نے
بٹیسر چا کو پھر اک زخم گہرا دے گیا کوئی
کھجوری باغ سے تاڑی کا مٹکا لے گیا کوئی
وہ بوڑھا برف والا آج بھی گلیوں میں آتا ہے
چولہائ خوانچے والا اب دکاں اپنی سجاتا ہے
نقی چاچا کے دونوں لاڈلے دلی میں رہتے ہیں
مگر کالو کے بیٹے آج بھی ویسے کے ویسے ہیں
مجاہد ماسٹر صاحب جہاں سے ہو گئے رخصت
بہت ناساز رہتی ہے ضمیرن بائ کی طبیعت
وہ گھر بھوسے کا اب بھی ہے جہاں تم چھپ کے آئے تھے
وہاں پکنے کو تم نے ایک دن کیلے چھپائے تھے
نکلتی آج بھی ہے چارپائی گھر کے آنگن میں
نظر آتی ہے وہ کاغذ کی کشتی اب بھی ساون میں
بدلتا ہے یہ موسم فصل جب گیہوں کی کٹتی ہے
کبڈی کھیلنے بچوں کی اک ٹولی نکلتی ہے
جلانے پہ تلا تھا دوستو گرمی کا موسم بھی
قیامت ڈھا گیا اس بار تو سردی کاموسم بھی
تمہارے ابو امی آج کل چپ چپ سے رہتے ہیں
تمہارے دوست رشتہ دار تم کو یاد کرتے ہیں
تمہارا نام ہر لب پر تمہارا ذکر ہے ہر سو
تمہارے منتظر ہیں چاند تارے پھول اور خوشبو
وہ آنچل پیاری ماں کا باپ کی انگلی چھڑاتی ہے
ضرورت ہی کسی کو دوستو پردیس لاتی ہے
ضرورت کا ہمیشہ سے جڑا بندھن ہے سکوں سے
ضرورت ہی کسی کو دور کر دیتی ہے اپنوں سے
بہت مشکل ہے اپنوں کے بنا اس دل کو بہلانا
ضرورت ختم ہو جائے تو گھر اپنے چلے جانا
ایم آر چشتی
یہ نظم جشن بہار دوحہ قطر کے لئے لکھی گئی ہے. بہار بھارت کی ایک ریاست ہے. اردو ادب بہار میں شاد عظیم آبادی، جمیل مظہری کی وجہ سے اپنی پہچان رکھتا ہے.