جِیون یہ مِرے درد کا افسانہ کوئی ہے
آنکھوں میں مگر جلوۂِ جانانہ کوئی ہے
غم دِل کے درِیچے پہ دِیئے جائے صدائیں
بے ماپ ہے یا درد کا پیمانہ کوئی ہے؟
آئے ہو ابھی، آتے ہی جانے پہ بضِد ہو
اِس طرز سے مِلتے ہو کہ بیگانہ کوئی ہے
اِس دشتِ جنُوں خیز کا ہر رنگ نیا ہے
دِیوانہ کوئی عِشق میں، فرزانہ کوئی ہے
ہر روز بِلا وجہ وہ بیوی کو گھسِیٹے
ہے شرم کوئی، جوہرِ مردانہ کوئی ہے؟؟
تسلِیم کِیا ہم سے بڑی بُھول ہُوئی ہے
جیسا ہے مِرا دِل کہاں وِیرانہ کوئی ہے
نادِم ہیں کہ ہم عِشق میں ناکام رہے ہیں
اِک جان لُٹا دینا بھی نذرانہ کوئی ہے؟
بِن کیف کبھی دِل کو کہاں چین ہُؤا ہے
مستی میں رہے مست یہ مستانہ کوئی ہے
حسرتؔ ہو بِنا اُن کے بھلا کیسے تشفّی
کہہ دِیجیے اُن آنکھوں سا مے خانہ کوئی ہے؟