چارپائی پر دراز اک گنگ پیکر سوچنا
گولیوں کے شور میں خندق کے اندر سوچنا
اے سپہ سالار تجھ کو خوں بہا کر کیا ملا
اس محاذ جنگ سے واپس پلٹ کر سوچنا
معتدل آب و ہوا تھی نیتیں بھی ٹھیک تھیں
ہو گئے کیوں گاؤں کے سب کھیت بنجر سوچنا
یہ تعارف ہے ہمارے عہد کے انسان کا
کالروں میں پھول رکھنا دل میں پتھر سوچنا
بن گئی ہے کچھ مہینوں سے میری عادت رفیق
سارا دن بے فکر رہنا اور شب بھر سوچنا