چاہت کی اذیت رہائی نہ دے گی
کہ بچنےکی راہ بھی دکھائی نہ دےگی
ہنسو آج محفل میں اتنا مرے دل
صدا سسکی کی پھر سنائی نہ دے گی
کسی کو وفا کے نہ قصے سناؤ
زمانے کی عادت بھلائی نہ دے گی
کسی کے بھی کردار کی نہ قسم دو
تمہیں کچھ اجر یہ گوائی نہ دے گی
خموشی کی تلقین منصف نے کی ہے
زباں اب کسی کو دہائی نہ دے گی
جوچاہو وہ پا لو گے سجدوں میں جاکر
تمہیں فیض رب کی خدائی نہ دے گی
اگر غم ملے ہوں جو اپنوں سے بس پھر
تو سبیلِ مرہم سجھائی نہ دے گی
اٹھو کر کے ہمت جیو سر اٹھا کے
بقا آگہی کی تباہی نہ دے گی
ذرا ڈوب کر آنکھوں میں غم کو پرکھو
نظر غم کی ورنہ گہرائی نہ دے گی
چلو پھر سے انعم لکھیں اک حقیقت
کہ چاہت کسی کو رسائی نہ دے گی