کب اُس کا وصال چاہیے تھا
بس ایک خیال چاہیے تھا
کب دل کو جواب سے غرض تھی
ہونٹوں کو سوال چاہیے تھا
شوق ایک نفس تھا اور وفا کو
پاسِ مہ و سال چاہیے تھا
ایک چہرہ سادہ تھا جو ہم کو
بے مثل و مثال چاہیے تھا
ایک کرب میں ذات و زندگی ہیں
ممکن کو محال چاہیے تھا
میں کیا ہوں بس اک ملالِ ماضی
اُس شخص کو حال چاہیے تھا
ہم تم جو بچھڑے گئے ہیں ہم کو
کچھ دن تو ملال چاہیے تھا