چرچہ سرِ عام کئے جاتئے ہو
کیوں ہمیں بدنام کئے جاتے ہو
اے حضور! کس لئے دیوانوں کو
بے وجہ دشنام دئیے جاتے ہو
آپ کی تمنا کوئی جرم نہیں
کیوں انہیں الزام دئے جاتے ہو
جوڑتے ہو توڑتے ہو دل میرا
پختہ کبھی خام کئے جاتے ہو
آج ایک کام لے کے بیٹھے ہو
صبح سے شام کئے جاتے ہو
بیچنا، خریدنا کچھ بھی نہیں
مول تول، دام کئے جاتے ہو
مجھ ایسے ناچیز کا زمانے میں
بے وجہ ہی نام کئے جاتے ہو
خوامخواہ ہی میری چشمِ سادہ کو
جھیل کبھی جام کئے جاتے ہو
عظمٰی ابھی کام بہت باقی ہے
اور تم آرام کئے جاتے ہو