چشم ساقی میں ہے شراب اتنی
کہ عمر بھر اب نشہ نہ ٹوٹے
اس خوف نے سونے نہ دیا رات بھر
کہیں میری قسمت کا ستارہ نہ ٹوٹے
تیرے پیروں کی آھٹ ہو جاناں
تو یہ عمر بھر کا سکوت ٹوٹے
خام خیالی ہے دنیا سے پیار بھی
دل کانچ تو نہیں کہ ساغر سا ٹوٹے
کاتب تقدیر جو لکھتا ہے تقدیر میری
میرے عمل کی روشنائی قلم سے پھوٹے