چلنے دیں جیسے کام چلتا ہے
کم سے کم دل میرا سنبھلتا ہے
دِل کی بربادیوں کا قصہ ہو
زندگی کا کوئی بھی حصہ ہو
دِل یہ کہتا ہے سب عیاں کر دوں
کیسے بھی ہو یہ سب بیاں کر دوں
خامشی روح کو تڑپاتی ہے
تشنگی جان کو جلاتی ہے
ایسے میں اِن کو روکنا مشکل
سب خیالوں کو ٹوکنا مشکل
لفظ در لفظ اترتے ہیں جب
خامہ سے ورق پہ چلتے ہیں جب
موتیوں کی طرح بکھرتے ہیں
میری مرضی سے کب ٹھہرتے ہیں
لفظوں میں یہ سمونا پڑتے ہیں
اِک لڑی میں پرونا پڑتے ہیں
شعروں نظموں غزل میں ڈھلتے ہیں
تب کہیں جا کے یہ سنبھلتے ہیں
ساتھ ہی میرا دل سنبھلتا ہے
کم سے کم دِل میرا سنبھلتا ہے
چلنے دیں جیسے کام چلتا ہے