کیا کہیں کیا بیتی ہم پہ اس زمانے میں
اک عرصہ لگے گا داستاں سنانے میں
بے وفائی کا الزام لیا فقط اس لئے
دیکھیں کیا مزہ ہے روٹھنے اور منانے میں
دل اب عقل سے تسلیم کرانا چاہے
جو نادانی کر بیٹھا ہے انجانے میں
مکان بن جاتا ہے لمحوں میں دولت سے
دیر لگتی ہے مکاں کو گھر بنانے میں
اگر پھیل جائے ہر سُو نفرت کی تاریکی
پل بھر دیر نہ کرنا پیار کا دیا جلانے میں
کبھی ان کی ہر تان ٹوٹتی تھی مجھ پر
اب میرا ذکر تک نہیں ان کے فسانے میں
اس نفسا نفسی کی دنیا سے دل بھر گیا
اشفاق چلو اپنی دنیا بسائیں کہیں ویرانے میں