چلو درد دل کی دوا ڈھوںڈھتے ہیں۔
ابن مریم سا کوئی مسیحا ڈھوںڈھتے ہیں۔
ڈوبا جا رہا ھے پیار کا سفینہ اپنے۔
کوئی چارہ کشائی نا خدا ڈھوںڈھتے ہیں۔
پیار حقیقت ھے جب کوئی خواب نہیں۔
پھرعقل کے اندھے کیا ڈھوںڈھتے ہیں؟
یہیں کہیں پڑا ہوگا جگر کے پاس
تھوڑا صبر دل! ابھی ذرا ڈھوںڈھتے ہیں۔
سنا ھےاسکو ضرورت ھے بھروسہ مند کی
شاید اس لیے وہ اہل وفا ڈھوںڈھتے ہیں۔
وہ جنکو جینے سے کوئی مطلب نہ ہو۔
وہ اکثر موت کا راستہ ڈھوںڈھتے ہیں۔