تیرا پیار تھا کہ عذاب تھا
وہ کرم بلا کا عتاب تھا
میرے پاؤں زخموں سے چور تھے
تیرا راستہ بھی خراب تھا
کہوں کس طرح میں وثوق سے
کہ وہ آب تھا یا سراب تھا
ہے بڑی تپش اسے ڈھونڈیے
جو تمازتوں میں سحاب تھا
وہی شخص دشمن جاں ہوا
جو کبھی مرا انتخاب تھا
میری تشنگی کو بڑھا گیا
کہ ترا ادھورا جواب تھا
جانے اب کہاں ہیں وہ ہستیاں
جنھیں دیکھنا بھی ثواب تھا
کہیں سب گناہوں کی معافیاں
کہیں ہر قدم پہ حساب تھا
چلو زیست یوں بھی گزر گئی
گو کہ مشکلات کا باب تھا