چلو پھر ڈھونڈ لیں ہم
اسی معصوم بچپن کو
انھیں معصوم خوشیوں کو
انھیں رنگین لمحوں کو
جہاں غم کا پتہ نہ تھا
جہاں دکھ کی سمجھ نہ تھی
جہاں بس مسکراہٹ تھی
بہاریں ہی بہاریں تھیں
کہ جب ساون برستا تھا
تو اس کاغذ کی کشتی کو
بنانا اور ڈبو دینا
بہت اچھا سا لگتا تھا
اور اس دنیا کا ہر چہرہ
بہت سچا سا لگتا تھا