چلو چل کے دیکھتے ہیں
سفر کر کے دیکھتے ہیں
منزل کی خبر نہیں
راستوں سے پوچھ کے دیکھتے ہیں
مایوسیوں کی سیاہ رات میں
امید کا چراخ جلا کے دیکھتے ہیں
سودا جو من میں ہے سمایا
اس کو سوا کر کے دیکھتے ہیں
چلو تو سہی اے آوارہ قدموں
راہوں کے حوصلوں کو دیکھتے ہیں
بہت دن ہوے آزمائے ہوئے
خود کو پرکھ کے دیکھتے ہیں