چھوٹی سی خواہش کے پیچھے ساری عمر بتا کر بھی
ہم نے انکے دل میں جگہ نہ پائی حال دل سنا کر بھی
قطرہ قطرہ رستی چاہت اپنے دل تک بھی پہنچی تھی
لیکن پیاس نہ بجھ پائی ہونٹوں سے جام لگا کر بھی
ایک چاہت کی خاطر ہم دل اور جان لٹا بیٹھے ہیں
کچھ حاصل نہ کر پائے ہم دل اور جان لٹا کر بھی
خوابوں اور خیالوں میں رہنے والے کب تک جیتے ہیں
ٹوٹ کر بکھر جائیں گے وہ بھی خوابوں کو سجا کر بھی
عظمٰی ایسے مر مر کر کب تک دنیا میں رہنا ہے
مرنا تو لازم ٹھہرا ہے موت سے آنکھ چرا کر بھی