کر کے اِک سوال اُس سے میں جواب چھوڑ آیا
قلبِ جا نِ جا نا ں میں ا نقلا ب چھو ڑ آیا
فطر تِ جنو ں میر ی میر ے کا م آ ئ ہے
ر ہبر ا نِ منز ل کو محوِ خو ا ب چھوڑ آیا
جس کا ھر ورق سادہ آپ ایک مکتب ہے
مکتبِ محبت میں وہ کتاب چھو ڑ آیا
جذ بہءِ تجسُس کو فکرِ نو عطا کر کے
صُبح کےاُجا لو ں میں خواب خواب چھوڑ آیا
دو ستو ں کی محفل میں رازِ دوستی کہہ کر
د و ستو ں کے چہرے پر اضطراب چھوڑ آیا