چھین لیتے ہیں وہ پردہ ظلم دہشت سے یہاں
آرزو تُو کیا کرے گا ایسی ملّت سے یہاں
ایک جذبہ دل میں رکھ کر زندہ رہنا سیکھ لے
نیک رہ پر تُونے چلنا اچھی نیّت سے یہاں
گیت نغمے ساز باجے اور تَرَنّم کیوں نہیں
خامشی ہے اس جہاں میں ایک مدّت سے یہاں
اس کی نظروں سے وہ موتی گرتے گرتے تھم گئے
سوچ کر کہ قرب ملتا ہے اطاعت سے یہاں
روح ان کی منتظر ہے موت کی آغوش کی
تیرے بندے جو ستائے جاتے ظلمت سے یہاں
نوچ ڈالو جسم اس کا اپنی خواہش کے لیے
ان کو مطلب ہے ہوس سے, کچھ نہ عزت سے یہاں
کیوں کتابیں پڑھ رہے ہو؟ کیا ہے تُو نے ڈھونڈنا؟
علم کا ہے نور ملتا اچھی صحبت سے یہاں
کھوگیا ہوں اس جہاں میں تجھ کو پانے کے لیے
کیا ملے گا عشق تیرا اب عبادت سے یہاں ؟
ایک دریا سا رواں ہے ان کے دل میں آگ کا
حاسدوں کے شر سے پیدا اور عداوت سے یہاں
کیسا مسلم تُو ہے عامر بندگی کیا ہے تری؟
کر رہا تھا تُو بھی باتیں ایک مورت سے یہاں