کیوں چھیڑ دی اُس نے وُہی بات پُرانی
بیتاب ہے سننے کو وہ میری رام کہانی
کیا سنائیں، کیا سُنے گا، وُہ حال ہمارا
مٹا ڈالی خود اس نے اپنی ہر ایک نشانی
ستارے بھی اڑاتے ہیں اب تو مذاق اپنا
دشمن سی لگے، مجھے ہر رات سہانی
سوتے سوتے ہڑبڑا کے بیٹھ جاتا ہوں
بہت ظالم ہے یہ اپنی کمبخت جوانی
بے خودی کا عالم سدا سے ایسا تو نہ تھا
دریاؤں جیسی تھی کبھی اپنی بھی روانی