ڈاکٹر صاحب، یوں مجھ سے ایک دن گویا ہوئے
“آپ کا بڑھتا وزن بے حد ہلاکت خیز ہے
دل کی بے ترتیب دھڑکن دے رہی ہے یہ صدا
آپ کی ہستی کا محور کام، کُرسی، میز ہے
شوقِ بسیار خوری نے بھی دِکھلایا ہے رنگ
آپ کو شاید فقط پرہیز سے پرہیز ہے
کام کی ٹینشن اور زیادہ کما لینے کی دُھن
اصل میں مادہ پرستی نقلِ انگریز ہے
آپ ایکسرسائز کے بھی نام سے ہیں نابَلَد
آپ کے بلڈ میں کولیسٹرول کا بھی ریز ہے
مختصر یہ کہ بہت دُشوار ہے جینا مزید
آپ کی ہستی کا شاید آخری یہ فیز ہے“
سُن کے اُن کی گُفتگو، ہم کو تو یوں لگنے لگا
ذکر عزرائیل کی آمد کا، فکر انگیز ہے
دست بستہ اُن سے پھر ہم نے کی یہ اِلتجا
“آپ کی دانست میں علاج کون سا تیز ہے؟
ڈائیٹنگ؟ یا ایکسرسائز؟ یوگ؟ یا پھر میڈیسن؟
اندھیرے میں مراقبہ؟ یا باتھ اِن سَن ریز ہے؟
کون ہے اِس دور میں، جس کو کہ ہو مرنے کا شوق؟
زندہ رہنے کی تمنا، ہمہ وقت نوخیز ہے“
جواب میں وہ نیک بخت، اِس طرح کہنے لگا
“زندگانی اصل میں تو اونلی فور ڈیز ہے
رات دِن کا اضطراب، بے وقت کھانا، بے حد کام
آج کا اِنسان، خُود اپنے لئے چنگیز ہے
چاہ گر صحت کی ہے، سرور تو بدلیں معمولات
اعتدال ہی اصل میں بیماریوں سے گُریز ہے“