ڈھونڈیں کہاں اب تو ہمیں ، ملبے نہیں ملتے
بنتے تھے جن سے کام وہ ، سجدے نہیں ملتے
رُخِ حرم سے اٹھتی پُرسوز صداٶں کو
عرش تک رساٸی کے ، رستے نہیں ملتے
أغوشِ مادر سے ہوں اب کیونکر ولی پیدا
اُسے سننے کو صالحین کے ، قصے نہیں ملتے
أنکھوں کو تاب ہے نہ موسیٰ سی طلب ہے
شکوے ہیں کوہِ طور کے ، جلوے نہیں ملتے
طفلِ حاضر میں کھوجتا ہوں اپنے معصومیت کے دن
مجھ کو مگر ایسے کہیں ، بچے نہیں ملتے
زُبانِ عدل پر مصلحت کا قُفل ہے
انصاف کے تقاضوں پر ، فیصلے نہیں ملتے
قانون بھی حرکت میں أتا ہے تو اس لۓ
جب جرم میں اُسے اپنے ، حصّے نہیں ملتے
اخلاق معاشرے میں بس اک وہی مہذب ہے
جسے اپنے تٸیں کرنے کو ، کارنامے نہیں ملتے