جاگنا چاہتے ہیں لیکن سو رہے ہیں
مسکرانا چاہتے ہیں رو رہے ہیں
اپنا کل کیسے سنواریں کیا خبر
آج سے بھی بے خبر ہم ہو رہے ہیں
ہر طرف دہشت گری کا راج ہے
اپنے دشمن آپ انساں ہو رہے ہیں
امن کی خوشبو محبت کے گلاب
رفتہ رفتہ ہم چمن سے کھو رہے ہیں
اپنی اپنی غرض میں جیتے ہوئے
ایک دوجے سے جدا سب ہو رہے ہیں
آؤ بڑھ کر تھام لو سب انکا ہاتھ
جاگنے والے جو اک دو رہے ہیں
ہے یقیں اک روز اپنا کارواں بن جائے گا
ایک سے دو دو سے گر سو ہو رہے ہیں