کانٹوں بھرا ہے رستہ یہ ، رستہ بدل کے دیکھ
ہر نقشہ بدل جائے گا تو ، نقشہ بدل کے دیکھ
دہشت گرد نہیں امن کا داعی کہے گی دنیا
چھوڑ ٹوپی داڑھی تو ، حُلیہ بدل کے دیکھ
جُڑ جائے گا تجھ سے بھی مستقبل وطن کا
کالج سے مدرسے کا ، بستہ بدل کے دیکھ
لاکھ ان کی حمایت کر یہ راضی نہیں ہونگے
کفر یہی چاہے گا تو ، کلمہ بدل کے دیکھ
قانون کی ذرا سی غفلت نے " ساہیوال " میں
پل بھر میں رکھ دیا گھر ، ہنستا بدل کے دیکھ
داستانِ نقیب سے بھی اُکتا چکے ہیں لوگ
ماحول گرمانے کو تو ، قصّہ بدل کے دیکھ
تو چاہتا ہے سب میں دیکھنا اوصافِ ملائک
خود کو بھی ذرا صفتِ ، فرشتہ بدل کے دیکھ
حُکمِ خُدا پر دل کب خود سے چلا ہے
اخلاق تو دل کو اپنے ، دانستہ بدل کے دیکھ