کانٹوں بھرے دامن کو گلشن گلاب کہوں اچھا نہیں
جلا ہوا سورج ہوں خود کو مہتاب کہوں اجھا نہیں
دکھ تو پہلے بھی سہے ہیں مگر کیسے سمجھاؤں کہ
زندگی میں کتنے آئے ہیں سراب، کہیوں اچھا نہیں
کسی کے حصے میں آئیں تعبیریں کسی کے صرف ادھورے خواب
کیوں اجڑی میری دنیا، اجڑ گئے ہیں خواب، کہوں اچھا نہیں
جس کو لکھا ھے زندگی میں نے دل بے پھر اس سے سوال کیسے
لے کر پھر اپنے ہی سوال کو لا جواب کہوں اچھا نہیں
محبت تو پھر محبت ہے گر بن جائے عشق تنویر
تو پھر پیار میں جدائی کو عذاب کہوں اچھا نہیں