کانٹوں کے نگر میں کھیں تو گلاب کھلا ھوگا
تیز ہوا لگی ہے کوئی تو برگ ہلا ھوگا
دیکھو موسم بدلا ہے نیا رنگ جما ہے
درختوں پہ کوئی پرندا تو اڑا ھوگا
جوانی میں آپ نے سنا ہوگا وفا کا نام
کوئی ایسا ہی شخص اسے بھی ملا ھوگا
یہ دنیا ہے ظالم حکمرانوں کی اے ساحر
کھیں نا کھیں وہ حسین چراغ تو جلا ھوگا