کبھی اشک ہے کبھی آہ ہے مری زیست ایک کراہ ہے
مری صبر و شکر سے دوستی مرا رنج و غم سے نباہ ہے
مجھے پستیوں سے نہ تو ڈرا مجھے بال و پر پہ یقین ہے
میں بلندیوں کا سفیر ہوں مری آسماں پہ نگا ہ ہے
نہیں خوش ہم اپنی خوشی سے دوسرے کی خوشی سے دکھی مگر
ہیں قناعتیں نہ رفاقتیں یہ جہاں اسی میں تباہ ہے
تجھے بھوک ہے نہ پیاس ہے نہ ہی سرد و گرم کی فکر ہے
تو فقیر ہے کہ ملنگ ہے نہ قبا کوئی نہ کلا ہ ہے
مجھے روز حشر کی فکر کیا مجھے پل صراط کا خوف کیا
میں حسن غلا م رسول ہوں مجھے مصطفی کی پناہ ہے