کبھی تو آتش کبھی تو دریا ہوا کا رخ بھی بدل گیا
یقیں کی قوت تو ایسی ہی ہے کہ لاوا جیسے ابل گیا
کبھی زمانہ ہوا مخالف کبھی حوادث نے بھی گھیرا
یقیں جو پختہ اگر رہا تو زمانہ سمجھو سنبھل گیا
یہ آزمائش کی جا ہے دنیا کوئی نہ اس سے ہی بچ سکا
رہا جو ثابت قدم ہمیشہ اسے کنارا ہی مل گیا
جو ہو بھی کتنا بڑا ہی پاپی خطا پہ نادم جو وہ رہا
جو ان کی چشمِ کرم پڑی تو خطا کا دفتر ہی دُھل گیا
جو قومیں آباد تھیں جہاں میں تو حشر ان کا کیا ہوا
رہے گناہوں پہ جو مٌصِر تو انہیں کا بَل سب نکل گیا
ملا کبھی اثر سے تو کوئی اٌسے تدبر میں ہی پایا
نہ زندگی کا کوئی بھروسہ کہ آج کوئی تو کل گیا