کیسے کٹتی ہیں بن تمہارے اداس شامیں کبھی تو آئو
چھین لیتی ہیں جیسے ہوش و حواس شامیں کبھی تو آئو
کہا تھا تم نے کہ لوٹ آئوں گا اس دسمبر کی بارشوں میں،
برس گذر گئے مگر نہ آئیں وہ خاص شامیں کبھی تو آئو
یہ سرد موسم ہمیشہ لاتا ہے یاد تیری ہی ساتھ اپنے،
تم سے ملنے کی تازہ کرتی ہیں آس شامیں کبھی تو آئو
اویس اب باقی چند لمحات ہی بچے ہیں سال کے بس،
لوٹ آئو کہ جا رہی ہیں حساس شامیں کبھی تو آئو
(یہ نظم دسمبر ٢٠١٢ کے آخری دنوں میں لکھی گئی)