کبھی خود کو کبھی در ویام دیکھتا ہوں
اجڑے ہوئے وطن کے صبح و شام دیکھتا ہوں
سینچا تھا جس کو خوں سے کبھی آبا نے
اب اس چمن میں کانٹے ہر گام دیکھتا ہوں
بے راہ روائے منزل گمنام راستے ہیں
اب سنگِ مِیل سارے بے نام دیکھتا ہوں
ہوں میکدے سے نالا اٹھ کر میں جا رہا ہوں
ساقی دکاں بڑھا دے خالی سب جام دیکھتا ہوں
انصاف بک رہا ہے مظلوم پس رہا ہے
قتلِ وقارِ ہستی ہر شام دیکھتا ہوں