یہ تو زندگی کا اصول ہے کبھی دھوپ میں کبھی چھاؤں میں
کبھی دن کٹے کسی دشت میں کبھی رات اآئی صحراوں میں
یوں دربدر کی ملی ٹھوکریں چین زندگی کو کہاں ملا
کبھی کس گلی کسی کوچے میں کبھی کس شہر کسی گاؤں میں
ہم سے وہ عبادت نہ ہو سکی کہ تیرا جلوہ بھی نہ عیاں ہوا
ایک توُہی خدا ہمیں نہ ملا کچھ ہم الجھ گئے خداؤں میں