کبھی کبھی کچھ اجنبی کتنے اپنے لگتے ہیں
کبھی سپنوں کی تعبیر کبھی سپنے لگتے ہیں
وہ جو آنکھوں کو ساری دنیا سے پیارا لگتا ہے
اس کے نام کی مالا دِل کے تار جپنے لگتے ہیں
جِن سے روح کا رشتہ وابستہ ہو جائے ان کے
سب خال و خط بھی نظروں میں جچنے لگتے ہیں
حسنِ ازلی کے جلوے کا پرتو د۔ل پہ پڑ جائے تو
سارے حسینوں کے چہرے پھر دبنے لگتے ہیں
سحر کی چاندی پھیلنے سے پہلے کھلیانوں میں
دہقانوں کے ہل دھرتی پر چلنے لگتے ہیں
رنگ برنگے پنچھی پیڑوں پر چہچہاتے ہیں
کانوں میں کوئل کے نغمے بجنے لگتے ہیں
عظمٰی صبح کا منظر نِکھرا نِکھرا سا لگتا ہے
شبنم میں دھل کر گل بوٹے سجنے لگتے ہیں