شہر کو گھیر لے تاریکی سرِشام اب کے
شہر کا نام تو بس رہ گیا ہے نام اب کے
اپنے ہی گھر میں سکوں ملنا ہے دشوار بہت
جنگلوں میں ہی چلو کرنے کو آرام اب کے
میں نے جنگل جو کہا شہر کو ، جگنو بولا
تھا فقط میرا ہی گھر ، کرنے کو بدنام اب کے
ایک کیاری پہ بھٹکتی ہوئی تتلی دیکھی
کہتی تھی شہر کے گل تو ہیں ، خوں آشام اب کے
کھیلتے کودتے جن گلیوں میں ہوتے ہیں جواں
ان جوانوں کے ہیں خوں رنگ درو بام اب کے
انّا لِلّلہ جو ہوئے لقمہ ء دہشت گردی
چلتے پھرتے بھی تو بے روح سے اجسام اب کے
فاختاؤں سے جو پوچھا تو وہ یوں گویا ہوئیں
امن کی آشا لگےآرزوئے خام اب کے
باندھ کر سر سے کفن گھر سے نکلیئے ہر روز
یا تو پھر چل ہی پڑیں اوڑھ کے احرام اب کے
شہر کی بُلبلیں روتے ہوئے کہتی ہیں ندیم
گیت کیا گائیں بسیروں پہ ہے کہرام اب کے