کراچی کے محصورین میں پنپتی سوچ

Poet: Ahsan Mirza By: Ahsan Mirza, Karachi

سب نے دیکھا جو ہورہا ہے یہاں
چند لوگوں نے کھیل کھیلا ہے
نام جس کا ہے خون کی ہولی
کچھ منظم اصول ہیں ان کے
بے گناہ، بےکسوں کو روندنا ہے
جیت ہے خون- عظمت- انساں
مثل- چنگیز بن کے بولنا ہے
گر وہی کھیل کے ہوئے فاتح
اہنیں سروں کے طویل منبر سے
ابن- آدم کی نعش- بوسیدہ
نوچنے کو ملے گی پہلے تو
کچھ درندہ صفت بھی پائیں گے
کچھ رنگ- فخر و نسل بھی انہیں
جئتنے پر نوازے جائیں گے
وہ بھی باندھے ہیں اپنے سر سے کفن
وہ اب اس کھیل کے مجاہر ہیں
راہ- چنگیز کے جری انساں
بس یہئ کھیل کے تقاضے ہیں
جو لگے ہاتھ مار دو اس کو
جو بھی انساں کچھ دکھے انساں
بس وہی زندہ گاڑ دو اس کو
ابتراء ایسی ہو کہ فرش- شہر
ہر جگہ لاش و خوں سے بھر جائے
پی لو اک جام- خودسری تا کہ
جو بچا ہے ضمیر مر جائے
وہ تو حیوانیت کے زاہد ہیں

Rate it:
Views: 688
09 Jul, 2011