سب نے دیکھا جو ہورہا ہے یہاں
چند لوگوں نے کھیل کھیلا ہے
نام جس کا ہے خون کی ہولی
کچھ منظم اصول ہیں ان کے
بے گناہ، بےکسوں کو روندنا ہے
جیت ہے خون- عظمت- انساں
مثل- چنگیز بن کے بولنا ہے
گر وہی کھیل کے ہوئے فاتح
اہنیں سروں کے طویل منبر سے
ابن- آدم کی نعش- بوسیدہ
نوچنے کو ملے گی پہلے تو
کچھ درندہ صفت بھی پائیں گے
کچھ رنگ- فخر و نسل بھی انہیں
جئتنے پر نوازے جائیں گے
وہ بھی باندھے ہیں اپنے سر سے کفن
وہ اب اس کھیل کے مجاہر ہیں
راہ- چنگیز کے جری انساں
بس یہئ کھیل کے تقاضے ہیں
جو لگے ہاتھ مار دو اس کو
جو بھی انساں کچھ دکھے انساں
بس وہی زندہ گاڑ دو اس کو
ابتراء ایسی ہو کہ فرش- شہر
ہر جگہ لاش و خوں سے بھر جائے
پی لو اک جام- خودسری تا کہ
جو بچا ہے ضمیر مر جائے
وہ تو حیوانیت کے زاہد ہیں