کر کے احساس کو دکھلائے تو زنجیر کوئی
دَعْویٰ بَہُتوں کو ہے غالب ہے کوئی میر کوئی
اک بغاوت ہے دل و دیدہ کی ہستی سے میری
عشق پر عقل کی چلتی نہیں تدبیر کوئی
حرف کی کاٹ سے لرزاں ہی رہی یہ دنیا
ضرب میں بڑھ نہ سکی خامہ سے شمشیر کوئی
علم نے سیکڑوں خاکے بھی بنائے لیکن
آج تک بن نہ سکی درد کی تصویر کوئی
کوئی دم شک نہیں ایمان اسی بات پہ ہے
لکھ رہا ہے دبے لفظوں مری تقدیر کوئی
یہ الگ بات ہے شاعر نہ کسی نے دیکھا
ثبت ہے میری جبیں پر بھی تو تحریر کوئی