کر کے روشن دیے وطن کی یادوں کے
میں جو تنھا شھرِ ظلمت کی
تاریکیوں میں جیتا ھوں
ناچتا میں جب بے خودی سے ھوں
تو چکرا کے گر بھی جاتا ھوں
پھر اٹھتا ھوں لڑکھڑا کر میں
اور پھر روتے روتے سو بھی جاتا ھوں
بلبلا کے اپنی حالت پر
خود کو پکارا ھوں میں
مگر اس شھر محشر میں
خود کو نہ ڈھوند پاتا ھوں
کبھی ڈبتا ھوں اپنے ماضی میں
کبھی فلک پر پرواز کرتا ھوں
کون ھوں میں ھے کھاں وطن میرا
خود ھی سے سوال کرتا ھوں
اور پھر ملامت میں خود کو
بے حد خاموش پاتا ھوں
با وضو کر کے خود کو میں یونھی
کبھی سجدوں میں غرق کرتا ھوں
اور پھر اپنی ھی نفی کر کے
فانی دنیا میں ڈھوندتا ھوں خود کو
دوستی کے جرم کو سھنے کو
وہ جو سن نھی سکتے،
وہ جو بیھرے ھیں
ھاں ایسے یاروں سے جب میں
ھم کلام ھوتا ھوں
سلگتی اٌگ پے گویا،
میں جی بھر کے سوتا ھوں
پھر مسکرا کے اپنے زخموں پر
تلملہ کہ روتا ھوں