ساری دنیا کے رواجوں سے بغاوت کر کے
میں اُسے روز مانگتی ہوں کچھ سخاوت کر کے
یہ خمارِ عشق ہے لاحاصل ہی رہے شاید
وہ جیت گیا کچھ سخن وروں سے عداوت کر کے
جانے کس کی لگی نظر گھر کے مکین کو
جا بسا ہے کہیں اور میرے نفس کی ضیافت کر کے
جب بھی کہا اُس نے کہا تم لڑکیاں ہوتی ہو بیوفا
شکوہ نہیں رکھا بتایا بس محبت ہی محبت کر کے
بہت آسان لگا کہنا نئے بندھن میں بندھ چکا ہوں
آیا نہ پھر کبھی میرے جذبوں میں قیامت کر کے
جلتے جلتے یوں ہی بجھ جائے اک روز تو کیا غم
شعلہ کوئی نیا نہ بھڑکائے گی شمع محبت میں خیانت کر کے