کسی طور اپنا بنایا تو ہوتا
مجھے حال اپنا سنایا تو ہوتا
میں قربان کر دیتا پھر زیست اپنی
کبھی تو مجھے آزمایا تو ہوتا
ترے پاس میں بھاگ کر آتا جاناں
کبھی پیار سے ہی بلایا تو ہوتا
ترے آنچل سے رہا دور ہی میں
مجھے پاس اپنے بیٹھایا تو ہوتا
محبت میں کمی نہ آتی کبھی پھر
ادھر سے ادھر ہی گھمایا تو ہوتا
نہیں دیتا غربت میں تو ساتھ کوئی
کبھی تم نے پیسہ کمایا تو ہوتا
کئی بار پوچھا ہے شہزاد تم سے
محبت میں سر کو ہلایا تو ہوتا