کسی نے پوچھا تنہائیوں سے وحشت نہیں ہوتی
میں نے کہا میں کب تنہا رہتا ہوں
اندھیرا چھا جائے جب پلکوں کی چلمن پہ
سرمئی شام کے جگنوؤں میں چمکتا رہتاہوں
سرگوشیاں کرتی ہے مجھ سے خوشبو اس کی
خزاں رسیدہ پتوں میں تازہ رہتا ہوں
وہ سا حل، گھروندہ ریت کا وہ،مسکان
بیتے لمحوں کی یادوں میں تازہ رہتا ہوں
بکھرے خوابوں کا جہان آباد رہتا ہے مجھ میں
ان کی تعبیروں کے نہ ملنے پہ حیران رہتا ہوں
جانے کیابات رہی اس کےدل میں تمام عمر
اس کےان کہے لفظوں کو سوچتا رہتا ہوں
فرصت نہیں ملتی اسے بھلا دینے کی
وقت کے گمنام دھاگوں میں الجھا رہتا ہوں