کسی کی اداسی پہ کسی کے دل کو خوشی ہے
یہ کیسی خود غرضی ہے یہ کیسی بے حسی ہے
ایک حقیقت دائم ہے ایک ذات ہی باقی ہے
دنیا کی ہر شے فانی ہر ایک کہانی فرضی ہے
لال گلابی نیلے پیلے اودے پھولوں کے نیچے
مخملیں قالین پہ پھیلی گھاس ہری ہری ہے
ایک ننھی سی بچی پھولوں کے درمیان بیٹھی ہے
دور سے میں نے دیکھا تو یوں لگا کوئی پری ہے
پیار کی جوت جگائے کوئی کسی کا دل نہ دکھائے
بس اتنی سی چاہت ہے بس اتنی سی عرضی ہے
تیس منٹ کو آتی ہے تین گھنٹے کے لئے جاتی ہے
اس بار کی لوڈ شیڈنگ نے تو حد ہی کر دی ہے
کپڑے استری کریں یا موٹر سے پانی بھریں
بجلی چلی جاتی ہے یہ کیسی درد سری ہے
عظمٰی بجلی کے آتے ہی میں تو جلدی جلدی
ہر ایک خالی دیگچی پانی سے بھر دی ہے