کسی کی پہچان لگتی ہوں
خود سے انجان لگتی ہوں
بہت پر سکون ہوں لیکن
بپھرا ہوا طوفان لگتی ہوں
اپنے ہی گھر میں کبھی کبھی
میں ایک مہمان لگتی ہوں
دانائی سے واقف ہو ں
لیکن نادان لگتی ہوں
منہ میں زبان ہے لیکن
میں بے زبان لگتی ہوں
نظر سے گراتے سر پہ بٹھاتے ہو
زمین لگتی کبھی آسمان لگتی ہوں
عظمٰی سب پوچھتے رہتے ہیں
میں کیوں پریشان لگتی ہوں