کس قدر انتظار آغاز میں تھا
رکے ہوئے تھے ارادہ سفر کا تھا
چلنے میں کوئی دقت نہ تھی
وہ ساتھ ہوتا تو سایہ اشجار کا تھا
ہر طرف چھائی ہوتی تھی خاموشی
پر سلسلہ تو کوئی آواز میں تھا
گم ہو گئے نید میں شہر کے لوگ
یا کوئی دھوکہ اس سحر کا تھا
ہر چیز نکھرتی چلی گئی نظر میں
آنکھوں کا منظر جو اک جھلک میں تھا