کل کہیں تجھ سے بھی اچھا ترا بیمار نہ ہو
اتنے سنگین تغافل کا گنہ گار نہ ہو
زندگی میں بھی سکوں ڈھونڈتے ہو دیوانو
زندگی کیا ہے جو چلتی ہوئی تلوار نہ ہو
آپ کی بات کے مفہوم کئی ہوتے ہیں
آپ کی ہاں کہیں ہم معنئ انکار نہ ہو
رات تو نصف سے زائد ہے مگر ڈر یہ ہے
اس گئے وقت بھی درباں کہیں بیدار نہ ہو
برہمی میں جو حلاوت ہے سجاوٹ میں کہاں
زلف ہی کیا ہے جو آشفتہ و خم دار نہ ہو
شمع میں کیا ہے جو دیتا ہے پتنگے کو فریب
اس کے پردے میں ترا شعلۂ رخسار نہ ہو
خلق رک جائے گی ناگاہ تماشے کے لئے
مجھ سے اس درجہ خفا برسر بازار نہ ہو
دل کو لے آتا ہوں بازار سے واپس ہر روز
اس طرح کا بھی عدم قحط خریدار نہ ہو