کوئی بیان ہے نہ کوئی دلیل ہے
ُمحبت کی عدالت میں نہ کوئی وکیل ہے
مُسافت کو ناپنے میں مری عُمر کٹ گئی
اے عشق تیرا سفر کتنا طویل ہے
یوں تو ہے نام اُسکا اُمراءِ شہر میں
لیکن وفا کے سودے میں تھوڑا بخیل ہے
ضِد تھی مری کہ بام پہ آؤ سرِ شام
جھَٹ سے کہا اُس نے اونچی سَفیل ہے
جب سے ہوئی ہے ربط میں قطعہ تعلقی
تب سے ہی اپنی تھوڑی طبیعت علیل ہے
دائم سخن کو سوز دے کر اُسے مَنا
ہے چار دن کا جینا مُدت قلیل ہے